Episode.10
"چل جلدی کر میری بھوک سے جان نکل رہی ہے"
مومنہ نے کیفے کا گلاس ڈور دھکیلتے ہوئے کہا
" تجھے ہمیشہ صرف کھانا کیوں یاد رہتا ہے؟"
ایمل نے آنکھیں گھمائیں
" مطلب تجھے نہیں لگتا کہ یہ ایک سیریس مسئلہ ہے میرا پیٹ خالی ہے اور تو میری انسلٹ کر رہی ہے "
مومنہ ڈرامائی انداز میں بولی وہ دونوں اس وقت ملنے والے پانچ لاکھ کو اچھی طرح استعمال کرنے آئی تھیں
" انسلٹ نہیں کر رہی یار، ریئلٹی چیک دے رہی ہوں"
ہنسی روک کر وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئی " ریئلٹی چیک چھوڑ پہلے یہ بتا، یہاں کا گارلک بریڈ آرڈر کرنا ہے یا پاستہ یا پھر دونوں"
مومنہ نے مزے سے کہا ایمل نے تھوڑی دیر رک کر سوچا پھر اس کی طرف گھومی
" دونوں؟ تجھے لگتا ہے تیرا پیٹ ایک چھوٹا سا شاپنگ بیگ ہے جس میں سب کچھ سما جائے گا"
مومنہ نے سر جھٹکا
" تو دیکھتی جا کھا بھی جاؤں گی اور ڈیزرٹ بھی لوں گی"
ایمل ہنس پڑی
" پھر مجھے تجھ سے دوستی توڑنی پڑے گی مومنہ، کیونکہ میں ایک موٹی بیسٹ فرینڈ افورڈ بالکل بھی نہیں کر سکتی"
" اوئے یہ کیا بات ہوئی "
مومنہ شاکڈ ہو کر بولی
" اچھی بات ہے کم کھائے گی زیادہ بھاگے گی"
ایمل نے جیسے مذاق اڑایا اور اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی جو اس کی پسندیدہ جگہ پر تھی یعنی گلاس ڈور کے قریب
" مجھے اب کوئی بات نہیں کرنی"
مومنہ نے برا مان کر کہا
" ٹھیک ہے ٹریٹ بھی کینسل"
ایمل نے آرام سے کہا
" میں صرف 10 منٹ کے لیے ناراض ہوئی تھی "
مومنہ فورا سیدھی ہوئی دونوں ہنسی مذاق کر رہی تھیں جب ایک ویٹر ان کے پاس آیا
" میم آپ ہمیشہ یہی لیٹ آرڈر کرتی ہیں نا؟ آج بھی وہی چاہیے؟"
ایمل ایک سیکنڈ کے لیے رک سی گئی اس کو کیسے پتہ پھر نہ محسوس انداز میں سر ہلا دیا مگر پھر بھی اچانک ایک نام اس کے دماغ میں آیا تھا کیا اس نے اتنے وقت تک میری چھوٹی چھوٹی چیز یاد رکھی ہے اس کے بالکل سامنے کارنر ٹیبل پر بیٹھا رافع کافی کے سپ لے رہا تھا اس کے ساتھ اس کا دوست بھی موجود تھا وہ دونوں ہلکی آواز میں باتیں کر رہے تھے لیکن اس کی آنکھوں کی گہرائی اب بھی اسی جگہ تھی جہاں ایمل موجود تھی
" ویسے تو نے علی کا رپلائی دیا؟"
ایمل نے نہ سمجھی سے مومنہ کو دیکھا
" کون سا علی؟"
وہ کسی علی کو نہیں جانتی تھی
" وہی جو تجھے کالج کے بعد میسج کر رہا تھا "
مومنہ نے شرارت سے آنکھ ماری ایک سیکنڈ کے اندر ایمل نے رافع کے کافی مگ کو دھیرے سے سخت گرفت میں آتے دیکھا وہ بالکل سیدھا بیٹھا تھا کوئی ری ایکشن نہیں لیکن اس کی انگلیاں مگ کے ارد گرد زیادہ مضبوطی سے جھکی ہوئی تھیں جیسے کسی نے اس کے اندر کوئی چیز جلا دی ہو
" تو جان بوجھ کر مجھے تنگ کر رہی ہے نا، مومنہ سدھر جا "
ایمل نے ہلکی آواز میں کہتے اس کو گھورا
" میں؟ بالکل بھی نہیں یار میں تو بس ایک بات کر رہی ہوں"
اس نے معصومیت سے پلکیں جھپکائیں
" جھوٹی تجھے پتہ ہے نا کہ وہ یہاں بیٹھا ہے"
ایمل نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا
" اوئے ہاتھ کیوں مار رہی؟"
مومنہ چیخی پھر دھیرے سے مسکرائی
" اچھا اب بتا علی کو ریپلائی دیا تھا نا؟"
" تو کچھ زیادہ نہیں بول رہی یا جان بوجھ کر کسی اور کا ری ایکشن چیک کر رہی ہے؟"
ایمل نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس کو دیکھا
" اللہ کی قسم مجھے صرف تیرے فیوچر کا سوچنا ہے "
مومنہ نے ڈرامائی انداز میں کہا
" تو چپ رہے گی یا میں تیرے گارلک بریڈ کینسل کر دوں"
ایمل نے اس کا ہاتھ زور سے تھاما
" تو مجھے ایموشنل ڈیمج دے رہی ہے "
مومنہ صدمے سے بولی تھی
" اور تو مجھے مینٹل ٹارچر "
جتنی سیریس یہ باتیں لگ رہی تھیں اتنی سیریس ایک نظر ان دونوں پر جمی ہوئی تھی ایمل نے گھبرا کر رافع کو دیکھا جس کی گرفت کافی مگ پر آہستہ آہستہ اور مضبوط ہو رہی تھی پھر وہ اٹھ کر کاؤنٹر پر چلا گیا اس نے بنا کچھ کہے ایک سلپ رکھی اور کیفے سے نکل گیا مومنہ نے تجسس کے مارے وہ سلپ اٹھا لی
" او ہو یہ کیا ہے؟"
جیسے ہی ایمل نے دیکھا اس کا دل دھک سے رہ گیا
" تمہاری ہر بات مذاق ہو سکتی ہے لیکن ہر چیز مذاق نہیں ہوتی "
وہ سن ہو گئی تھی
☆☆☆
وہ اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی اس کا دماغ تیز تیز چل رہا تھا اور پھر وہ ایک نتیجے پر پہنچ کر رک گئی خود کو سنبھالتے وہ سیدھا آتش کے پاس گئی جو اپنے جم خانے میں موجود تھا
" واہ! آتش زایان، میں تمہاری مہربانیوں کا احسان اتاروں یا اپنے آپ پر ہنسوں ؟"
مہر نے اس کو دیکھتے تیز لہجے میں کہا آتش رک گیا مگر بولا کچھ نہیں
" تم سوچتے ہو کہ تمہارے دیے گئے احسان مجھے قرض دار بنا دیں گے تم سمجھتے کیا ہو کہ میں تمہاری طرح کمزور ہو جاؤں گی"
غصے سے کہتے وہ اس کے قریب آئی، آتش نے پانی کی بوتل اٹھائی پانی پیا۔
مہر کو مزید تپ چڑھی
" مجھے نفرت ہے تم جیسے مردوں سے آتش، جو صرف اپنی مرضی چلاتے ہیں جب چاہیں کسی کی بھی زندگی برباد کر دے اور جب چاہے احسان جتانے لگ جائیں "
وہ غصے سے چلائی اس نے دیکھا آتش پر اب بھی کوئی اثر نہیں ہوا وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی اور اس کو دھکا دے دیا وہ لڑکھڑایا تک نہیں تھا بلکہ وہ خود ہل سی گئی تھی اس کو رونا آنے لگا مگر خود برقابو پا لیا آج وہ ہر صورت چاہتی تھی کہ آتش پہلی کی طرح اس پر چلائے غصہ کرے ہاتھ اٹھائے اور گھر سے نکال دے جب کہ آتش کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ اس کی ہر کوشش ناکام بنا رہا ہے
" کیا ہوا غصہ نہیں آ رہا ہے کیا؟ ہاتھ کیوں نہیں اٹھاتے، کیا تمہاری عزت اتنی سستی ہے جو ایک عورت سے ہار گئے "
مہر نے ٹھان لیا کہ بس آج وہ کسی صورت ہار نہیں مانے گی آتش اب کی بار رک گیا اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے گلوز اتارے پھر اس کے بالکل سامنے آ کر کھڑا ہو گیا مہر نے سانس روک کر اس کو دیکھا کیا وہ واقعی اسے مارے گا
" کیوں تم چاہتی ہو کہ میں تم پر ہاتھ اٹھاؤں؟"
آتش نے دھیمی مگر گہری آواز میں کہا مہر ایک پل کو رکی، آتش اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
" عورت پر ہاتھ صرف دو طرح کے مرد اٹھاتے ہیں، ایک وہ جو بیکار ہوتے ہیں اور دوسرے جو بے بس ہوتے ہیں اور میں دونوں نہیں ہوں "
آنکھوں میں سختی اور لہجے میں درد لیے آتش نے کہا پھر بنا اس کے تاثرات پر غور کیے باہر نکل گیا مہر کے سارے پلان کا بیڑا غرق ہو چکا تھا اور وہ وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔
☆☆☆
آتش رات کو دیر سے گھر آنے لگا تھا مہر خوش ہو گئی کہ چلو وہ رات کو سونے سے پہلے اس کی سڑی ہوئی شکل تو نہیں دیکھ سکتی سارا دن وہ اپنے گھر چلی جاتی، ایمل مومنہ اور عینی کے ساتھ باتیں کرتی مگر سب نے ہی غور کیا کہ وہ پہلے جیسی نہیں رہی جو ہر وقت ان کو تنگ کیے رکھتی تھی زریاب اور مشعل ابھی تک واپس نہیں آئے تھے ان کا ٹرپ ذرا لمبا ہو گیا تھا تہمینہ خالہ روز اس کو فون کرتیں اس کا حال چال پوچھتیں آتش کے بارے میں بس اتنا پوچھتیں کہ وہ تمہیں تنگ تو نہیں کرتا غصہ تو نہیں کرتا آگے سے وہ خاموش ہو جاتی وہ اب ان کو کیا بتاتی کہ وہ اس کے غصے کی وجہ سے کبھی اتنا ڈسٹرب نہیں ہوئی جتنا اس کے خیال رکھنے سے ہو رہی ہے اس کی خاموشی کو اپنے مطلب میں سمجھ کر خالہ بات بدل جاتیں انہیں فلحال امید ہی نہیں تھی کہ آتش کبھی بدلے گا وہ تو اب آتش سے بھی بات نہیں کرتی تھیں وہ کال کرتا مگر وہ نہیں اٹھاتیں، ایک رات معمول کے مطابق جب وہ گھر واپس آئی تو پورا گھر سناٹے میں گھرا تھا باہر ہلکے ہلکے بادل گرج رہے تھے جیسے کوئی طوفان آنے والا ہو لائٹ بھی نہیں تھی اور آتش بھی ابھی تک نہیں آیا تھا اسے پہلی مرتبہ اندھیرے سے ڈر لگا خود کو سنبھالتے وہ کمرے میں داخل ہوئی پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا اس نے موبائل نکال کر ٹارچ روشن کرنا چاہا تبھی میسج ٹون بجی اس نے الجھ کر نمبر دیکھا نمبر انجان تھا ان باکس کھولنے کے بعد جیسے ہی اس نے میسج دیکھا اس کا دل کانپ گیا
" تمہارے تھپڑ کی گونج ابھی بھی میرے کان میں ہے کیا تم تیار ہو ؟"
اس کا رکا دل ایک دم تیزی سے دھڑکنے لگا آنکھوں میں ہلکا سا خوف جھلکا
" یہ۔۔۔۔۔ یہ کون؟"
اس نے سوچنا چاہا
" ایک منٹ ضرور کوئی میرے ساتھ مذاق کر رہا ہے "
اس نے میسج کو نظر انداز کرنا چاہا اور اس میں کامیاب بھی ہو گئی مگر اس کے دماغ میں بس ایک ہی چہرہ آ رہا تھا جس کا تعلق اس میسج سے ہو سکتا تھا لیکن پھر اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک دیا اگلی صبح مہر کو اپنے کمرے کے سامنے ایک چھوٹا سا لفافہ ملا اس کے ہاتھ کانپے دھیرے سے اس نے لفافہ اٹھایا اندر ایک بلیک پیپر تھا اس پر ایک سطر لکھی تھی
" ڈر مہکتا ہے مہر اور مجھے تمہاری یہ مہک بہت پسند ہے "
اس نے فورا لفافہ دور پھینکا جب کہ ڈر اس کے دماغ میں بس چکا تھا آتش نے محسوس کیا کہ مہر پہلے سے زیادہ چپ چپ رہنے لگی ہے اسے دکھ ہوا اسے مہر کی یہ خاموشی الجھن دینے لگی تھی
" تم ٹھیک تو ہو نا؟"
کھانے کی ٹیبل پر آتش نے پوچھا مگر مہر نے کوئی جواب نہیں دیا جیسے کچھ سنا ہی نہیں
" مہر اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتاؤ مجھے میں۔۔۔۔"
" کوئی مسئلہ نہیں ہے "
وہ فورا سے پہلے اٹھ کر چلی گئی جبکہ آتش سن سا ہو گیا رات کو ایک مرتبہ پھر اس کو لفافہ ملا تھا اس میں ایک تصویر تھی اس کی خود کی تصویر جہاں وہ کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی
" یہ۔۔۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے ضرور کوئی مجھے دیکھ رہا ہے"
اس نے تصویر بھی پھینک دی اس کا دماغ پھٹنے لگا تھا ٹینشن پیک پر پہنچ چکی تھی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی کمرہ گہرے اندھیرے میں ڈوبا تھا اس کی آنکھوں سے تیزی سے آنسو گرنے لگے اس کی سوچ اس کے دل کو کاٹ رہی تھی آتش کا ہر لفظ اس کے کان میں گونج رہا تھا اس کی زندگی کو ایک عذاب کی طرح بنانے والا لفظ کیا یہ سب آتش کر رہا ہے میرے ساتھ کیا وہ اس لڑکے کے ساتھ مل گیا ہے جس کو میں نے تھپڑ مارا تھا کیا اسی کی وجہ سے وہ گھر دیر سے آنے لگا ہے تاکہ میں اس پر الزام نہ لگا سکوں اور خود ہی گھر چھوڑ کر چلی جاؤں تو کیا یہ سب ایک ڈھونگ ایک ڈرامہ تھا جو وہ اتنے دنوں سے کر رہا تھا، غصے سے اس کا دل پھٹنے لگا اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے موبائل آن کیا واٹس ایپ پر وائس ریکارڈنگ کا بٹن دبا دیا
" آتش نے مجھے کہا تھا کہ وہ میری زندگی عذاب بنا دے گا اور وہ سچ تھا"
اس کی سسکی سے نکلی
" وہ مجھ سے نفرت کرتا تھا اور وہ اتنی نفرت کرتا ہوگا میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا اور نہ ہی سوچ سکتی تھی لیکن میں یہ بات اس سے کبھی نہیں پوچھ پائی کہ اسے مجھ سے اتنی نفرت کیوں ہے میں نے آخر ایسا کیا کیا تھا جو میں اس کے لیے اس قدر قابل نفرت ہوں آتش کے رویے کی وجہ سے مجھے لگا کہ وہ واقعی بدل چکا ہے لیکن آج اس نے میری یہ خوش فہمی بھی دور کر دی "
اس کے آنسو تیزی سے گرنے لگے اندھیرے کمرے میں اس کی ہچکیاں گونج رہی تھیں مگر وہ بول رہی تھی
" جب مشعل نے مجھ سے کہا کہ "تم بھی آتش سے محبت کرتی ہو" تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آتش بھی مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن اب مجھے سمجھ آگیا ہے کہ وہ محبت نہیں تھی جو پچھلے چند دنوں میں وہ کر رہا تھا وہ تو سازش تھی میں اس سے اپنی محبت چھپا رہی تھی اور اب یہ سب اسی کی وجہ سے ہو رہا ہے"
وہ رکی گہری سانس لی
" جب میں اس کے پاس نہیں ہوں گی تب اسے سمجھ آجائے گا کہ میں اس کے لیے کیا کر رہی تھی یہ غم یہ درد یہ خود کو مارنا یہ سب اس کی وجہ سے تھا میرے جانے کے بعد وہ جانے گا کہ میں اس سے کتنی محبت کرتی تھی"
اور پھر ریکارڈنگ بھیج دی موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ بستر پر لیٹ گئی آنسو ابھی بھی جاری تھے تبھی کھڑکی کا ہینڈل ہلکا سا ہلا مہر کا دل بند ہوا وہ دھیرے سے اٹھی دروازے کا لاک چیک کیا سب کچھ ٹھیک تھا اور پھر جیسے ہی وہ مڑی ایک کپڑا تیزی سے اس کے منہ پر باندھ دیا گیا اس نے چلانا چاہا لیکن کوئی آواز نہ نکل سکی کوئی اس کے ہاتھ زور سے پکڑے کھڑا تھا یہ سب کچھ صرف دس سیکنڈ کے اندر ہوا تھا اس کے ہوش اڑ گئے سانس تیز ہو گئی اور پھر دھیرے دھیرے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
☆☆☆
آتش بالکل خاموش سا بیٹھا مشعل کی سسکیاں سن رہا تھا طیبہ بیگم بری طرح رو رہی تھیں زریاب غصے سے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا عبید بھائی اور امان رضا صاحب کے بالکل سامنے بیٹھے تھے ان کے چہرے پر پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی عینی ایک کونے میں بالکل چپ کھڑی تھی جبکہ مومنہ اور ایمل پلر کے ساتھ چپکی کھڑی سب کو دیکھ رہی تھی نایاب پھوپھو طیبہ بیگم کے ساتھ بیٹھی انہیں دلاسا دے رہی تھیں پوری رات وہ سب مہر کو ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہیں ملی صبح کا اجالا چہار سو پھیل گیا اور سب کی امیدیں بھی ٹوٹ گئیں تبھی عبید بھائی نے پولیس کو انوالو کرنے کا مشورہ دیا
" اگر تم لوگ بےکار پولیس کو انولو کرنے والے ہو تو میں اکیلا مہر کو ڈھونڈ لوں گا"
آتش نے غصے سے کہا البتہ اپنے برے رویے کا دکھ جو اس نے مہر کے ساتھ روا رکھا تھا اندر ہی اندر اس کو کھا رہا تھا
" میری بہن تمہارے گھر سے غائب ہوئی ہے آتش اور تم اتنے آرام سے بیٹھے ہو"
زریاب آتش پر چلایا آتش کو مزید دکھ ہوا مگر وہ کچھ بول نہیں سکا
" اگر مہر کو کچھ ہوا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا"
زریاب نے اسے دھمکی دی مہر کے غائب ہونے کی خبر ملتے ہی وہ فجر کے وقت یہاں موجود تھا
" ہمیں سوچ سمجھ کر جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا آپ دونوں لڑنا بند کریں "
عینی کو نہ جانے کیوں غصہ آیا تھا رضا صاحب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اپنی بیٹی کے لیے ان کا دل مزید بے چین ہونے لگا
" ذریاب بیٹا جاؤ میری بچی کو کہیں سے ڈھونڈ کر لاؤ پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے"
طیبہ بیگم نے روتے ہوئے اسے پکارا آتش نے ایک خاموش نظر سب پر ڈالی اسے جلد از جلد مہر کو ڈھونڈنا تھا پوری رات وہ مہر کو ڈھونڈتا رہا تھا ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہ سکون سے نہیں بیٹھا تھا سب کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے مگر اس کا دل یہ بات ماننے کو بالکل بھی تیار نہیں تھا۔
" وہ گھر چھوڑ کر کیوں چلی گئی بتاتی تو سہی کہ ہوا کیا ہے "
نایاب پھوپھو نے نم لہجے میں کہا آتش نے دیکھا ان کی بات پر عینی نے نفرت سے اس کو دیکھا ہے وہ پریشان ہو گیا خطرے کا الارم بجا تبھی عینی نے موبائل نکال کر کچھ آن کر دیا پورا ہال ایک لمہے کو سناٹے میں گھر گیا بس ایک آواز تھی جو گونج رہی تھی،
مہر کی آواز،
اس کے رونے کی ہچکیوں کی وہ شاکڈ سا عینی کو دیکھ رہا تھا سب کے چہرے پر بے یقینی غصہ اور نہ جانے کیا کچھ تھا وہ جو کچھ بول رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ صرف آتش کو سنانے کے لیے ہی بول رہی ہے آتش آہستہ سے کھڑا ہوا اس کا چہرہ تاریک ہو چکا تھا خود پر اٹھتی سب کی بے یقین نگاہیں اسے جلانے لگی تھیں اس نے دیکھا زریاب اس پر چلا رہا تھا پھر وہ عینی کے پاس گیا کچھ پوچھ رہا تھا اور عینی روتے ہوئے ذریاب اور باقی سب کو کچھ بتا رہی تھی وہ بنا کسی کی طرف دیکھے خاموشی سے باہر نکل گیا
☆☆☆
مہر کی آنکھیں دھیرے سے کھل رہی تھیں سر میں تیز درد ہو رہا تھا جیسے کسی نے اس کا پورا جسم توڑ کر رکھ دیا ہو اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر ہاتھ اور پیر کمزور لگ رہے تھے کانوں میں صرف ایک ہلکی سی آواز گونج رہی تھی، پانی ٹپکنے کی آواز،
اس نے ارد گرد نظر ڈالی ہر طرف اندھیرا تھا صرف ایک کونے میں لیمپ، ارد گرد کی دیواریں پرانی اور خستہ حال دکھ رہی تھیں یہاں ہوا بھی بے چین تھی ٹھنڈی اور گھٹن بھری
" یہ۔۔۔ یہ کہاں ہوں میں ؟"
اس کے لب تھرتھرائے اس کا گلا سوکھ رہا تھا اس نے دونوں ہاتھوں سے زمین کو محسوس کیا ٹھنڈی پتھر جیسی زمین، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسی جگہ تھی اس نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی اور تبھی گر گئی گھٹن اتنی تھی کہ سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا کہیں کوئی دروازہ نہیں دکھ رہا تھا صرف ایک لوہے کی بھاری سل یا شٹر جیسا کچھ تھا جو بند تھا اس نے زور سے چیخنا چاہا لیکن گلا سوکھ چکا تھا آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے تبھی ایک بھاری آواز گونجی
کھررررررر۔۔۔۔۔
جیسے لوہے کا کوئی دروازہ یا شٹر ہلا رہا ہو مہر نے تیزی سے سانس اندر کھینچ لی دل جان گیا کہ کوئی تھا جو اندر آنے والا تھا اس کے پیر اپنے آپ پیچھے ہٹنے لگے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر وہ دیوار سے جا لگی اور سانس روک لی بھاری قدموں کی آواز قریب آئی ایک پل کے لیے سب کچھ خاموش ہو گیا پھر ایک دم بلب جل اٹھا تیسری دفعہ جھلملانے کے بعد اس کی ہلکی پیلی روشنی دور تک پھیلتی گئی اور پھر وہ اندر آیا
لمبا قد، مضبوط بدن ، چہرے پر ایک عجیب سا سکون جیسے یہ سب اس کے لیے ایک گیم ہو اس نے شیشہ اتار کے ایک طرف رکھا اور تیز نظروں سے مہر کو دیکھا مہر کی سانس رکی یہ وہی لڑکا تھا جس پر اس نے ہاتھ اٹھایا تھا لیکن یہ یہاں کیا کر رہا تھا اس نے ایک قدم آگے بڑھایا
" آخر اٹھ ہی گئی تم"
اس کا لہجہ عجیب سا تھا جیسے سب کچھ اس کے کنٹرول میں ہو مہر نے گھبراہٹ میں ایک قدم اور پیچھے لے لیا
" تم ۔۔۔۔ تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟"
اس کا خشک گلا مزید سوکھا
" تم نے مجھے مارا تھا یاد ہے؟"
لڑکے کے ہونٹوں پر ہلکا سا مذاق اترا مہر کا دل ایک سیکنڈ کے لیے رکا تو یہ سب اس ایک تھپڑ کی وجہ سے تھا یہ اس کا بدلہ لینے آیا ہے
" اگر تم سمجھتے ہو کہ میں تم سے ڈر جاؤں گی تو تم بہت بڑی غلط فہمی میں ہو"
مہر نے دانت بھینچ لیے لڑکا ہلکا سا جھکا پھر اس کی آنکھوں میں دیکھا
" ڈر کا ٹائم ابھی شروع ہی کہاں ہوا ہے"
اس کا لہجہ اتنا ٹھنڈا تھا کہ مہر کی رگوں میں ایک اجنبی سی ٹھنڈک دوڑ گئی یہ صرف ایک تھپڑ کا بدلہ نہیں تھا یہ کچھ اور تھا،
☆☆☆
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی وہ چند لمحے گاڑی میں بیٹھا رہا پھر باہر نکل آیا آہستہ سے چلتا وہ ایک بینچ پر جا بیٹھا اس کی گہری بھوری آنکھوں میں نمی تھی وہاں سڑک سنسان تھی بالکل سنسان۔ درختوں کے پتے سرد ہوا میں بے جان ہو کر ہل رہے تھے اس نے جیب سے موبائل نکالا تھوڑی دیر سکرین کو گھورتا رہا ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے، چند لمحے گزرے پھر اس نے آہستہ سے ایک نمبر ملایا فون کے دوسری طرف تہمینہ بیگم تھیں بیل جاتی رہی اور پھر کال ریسیو ہو گئی ایک نرم فکرمند آواز سنائی دی
" آتش کہاں ہو تم بیٹا؟ کوئی خبر ملی مہر کی؟ کیسی ہے وہ؟ کچھ پتہ چلا ؟"
آتش خاموش رہا اس کی آنکھیں کسی نامعلوم نقطے پر جمی ہوئی تھیں سانسیں بے ترتیب وجود تھکا ہوا دل بکھرا ہوا ماں کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی مگر وہ جواب دینے سے قاصر تھا
" بیٹا کچھ تو بولو تم ٹھیک ہو مہر ۔۔۔۔۔"
" میں نے ، میں نے یہ کیا کر دیا امی "
آتش کی مدھم لرزتی ہوئی آواز نکلی تہمینہ بیگم بالکل چپ ہو گئیں
" مجھے اس سے نفرت نہیں تھی امی یہ تو بس میری ضد تھی میری انا تھی میں سمجھتا رہا کہ میں اس سے دور رہ سکتا ہوں مگر اب جب وہ نہیں ہے تو ہر طرف بس وہی ہے ہر جگہ ہر سانس میں صرف وہی ہے"
آتش کی آنکھیں نم ہوئیں مگر وہ آنسو نہیں بہا سکا اس نے ہمیشہ مضبوط رہنا سیکھا تھا مگر آج؟ آج وہ ٹوٹ رہا تھا اپنے ہی احساسات کے بوجھ تلے دب رہا تھا
" میں نے اس کے ساتھ کیا کر دیا، جب وہ میرے سامنے تھی میں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی اسے بار بار گرایا اس کا دل توڑا اسے نفرت کا یقین دلایا اور وہ، اس نے پھر بھی مجھے نہیں چھوڑا صرف اسی لیے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی تھی "
اس نے اپنی انگلیوں کو مٹھی میں جکڑ لیا اس کے لب تھوڑے تھوڑے کانپ رہے تھے
" اور میں محبت کیا جانوں امی، محبت تو کمزور پڑ جاتی ہے مگر یہ جو میں محسوس کر رہا ہوں نا یہ محبت نہیں ہے یہ اس کے آگے کی چیز ہے "
ایک لمبی خاموشی چھا گئی وہ اپنی سانسوں کو قابو میں لانے کی کوشش کرتا رہا پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے کسی نظر نہ آنے والی شے سے مخاطب ہو پھر اس نے دھیرے سے سر جھکا کر آنکھیں موند لیں اور جب بولا تو اس کے الفاظ اس کے دل کے سب سے گہرے راز تھے
" میں مہر سے نفرت نہیں کرتا تھا نہ ہی مجھے اس سے محبت تھی۔۔۔۔"
وہ رکا لمبی سانس اندر کھینچی
" مہر تو میرا عشق تھی، آتش مہر۔۔، "
تہمینہ بیگم سناٹے میں رہ گئیں وہ یقین کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ جو ابھی آتش نے کہا وہ سچ تھا انہوں نے دیکھا کال کٹ گئی تھی آتش نے آہستہ سے موبائل کان سے ہٹایا اس کے ہاتھ لرز رہے تھے پھر اس نے گہری سانس لی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا اسے مہر کو ڈھونڈنا تھا ہر حال میں جلد از جلد
☆☆☆
مہر کی سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی یہ صرف ایک تھپڑ کا بدلہ نہیں تھا بلکہ یہ کچھ اور تھا لیکن کیا اس کا دماغ اب تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اریس ابھی بھی اس کے سامنے کھڑا تھا
" تمہیں کیا لگتا ہے ۔۔۔"
اس کی تیز اور ٹھنڈی آواز گونجی
" میں تم سے ایک تھپڑ کا بدلہ لینے آیا ہوں؟"
مہر نے دیکھا اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی شکار کو پھنسا کر مزہ لے رہا ہو
" تم جو بھی کر رہے ہو غلط کر رہے ہو اگر تم سمجھتے ہو کہ میں تم سے ڈر جاؤں گی تو تمہیں اپنی سوچ بدلنی پڑے گی "
مہر نے اپنی ساری ہمت جوڑ کر کہا۔ اریس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اب وہ بالکل اس کے سامنے تھا اس نے دھیرے سے جھک کر مہر کی طرف دیکھا اس کے چہرے سے بس چند انچ دور
" ڈر تو تم رہی ہو مہر ۔۔۔۔"
اس نے دھیمے لہجے میں کہا لبوں پر مسکراہٹ تھی
" مجھے تمہاری آنکھیں سب بتا رہی ہیں"
مہر نے گھبراہٹ سے پیچھے ہونا چاہا تبھی اسے محسوس ہوا پیچھے دیوار تھی اریس دھیرے سے مسکرایا بنکر کی ہوا ڈمپ تھی ہوا میں ایک عجیب سی نمی تھی جو سانس لینا بھی مشکل کر رہی تھی اریس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی سلور چین نکالی اس کے آگے ایک پینڈنٹ جھول رہا تھا مہر کی آنکھیں اس پینڈنٹ پر ٹک گئیں، یہ اس کا تھا ۔
" تمہاری پسند اچھی ہے"
اریس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا
" ایک دن پہنے دیکھا تھا اور سوچا ایک دن یہ میرے پاس ہوگا"
مہر کی رگوں میں غصہ اور خوف ایک ساتھ بھر گیا
" آخر تم چاہتے کیا ہو؟"
وہ چلائی تھی اریس نے ایک قدم پیچھے لیا اور بنا کوئی جواب دیے ایک بٹن دبا دیا ایک تیز برائیٹ لائٹ جل اٹھی اتنی تیز کے مہر کو اپنی آنکھیں بند کرنی پڑی اس نے اپنی آنکھیں دھیرے سے کھولنے کی کوشش کی لیکن اب سامنے کا نظارہ اور بھی زیادہ پریشان کرنے والا تھا ایک بڑا آئینہ اس کے سامنے تھا لیکن یہ صرف ایک آئینہ نہیں تھا یہ ایک ون وے مرر تھا اس کے پیچھے کوئی اور تھا مہر دل تیز تیز دھڑکنے لگا کوئی اسے دیکھ رہا تھا
" تم یہاں اکیلی نہیں ہو مہر"
اریس نے دھیرے سے کہا مہر نے پھر آئینے کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں ڈر سے پھٹ گئیں
" یہ سب کیا ہے ؟"
اس کی آواز کانپی
" بس ایک چھوٹا سا گیم، تمہارے لیے۔"
اریس نے کہتے ایک دوسرا بٹن بھی دبا دیا اچانک ایک shrill high pitched ساؤنڈ گونج اٹھی اتنی تیز کے مہر کے کان پھٹنے لگے اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے لیکن آواز کم ہونے کے بجائے اور تیز ہوتی گئی مہر نیچے گر گئی اس کا سر ایک طرف جھک گیا وہ اسے مینٹلی ٹارچر کر رہا تھا
" تم جتنی جلدی ہار مان لو اتنا بہتر ہے"
اریس نے آرام سے کہا مہر کی سانس تیز ہو گئی اس کا سر گھوم رہا تھا اریس اس کی ہمت توڑنا چاہتا تھا
☆☆☆
بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں زمین پر گر رہی تھیں لیکن ایک آگ تھی جو آتش زایان کے اندر جل رہی تھی اس کے ہاتھ میں مہر کا فون تھا اور اس فون کا ایک میسج اس کے رگ رگ میں گونج رہا تھا
" جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا اب اس کا مزہ چکھو"
آتش کی انگلیاں زور سے فون کے گرد کس گئیں
اریس، وہی گھٹیا انسان جسے مہر نے تھپڑ مارا تھا اس نے بنا کسی دیر کے اپنے آدمی کو اس نمبر کا ٹریس نکالنے کا کہا، صرف 10 منٹ لگے اور لوکیشن سامنے تھی انڈسٹریل ایریا کے پاس ایک ایبن ڈونڈ سائٹ، اس اندھیری گلی میں وہ لڑکا اپنی گاڑی کا لاک کھول رہا تھا جب اچانک پیچھے ایک تیز سایہ لہرایا اگلے ہی سیکنڈ ایک سخت ہاتھ اس کی گردن پر تھا
" تمہاری سانس تب تک چل رہی ہے جب تک میں چاہتا ہوں"
آتش کی برف جیسی ٹھنڈی آواز اس کے کانوں میں گونجی اس نے بولنا چاہا تبھی آتش کے گرفت مزید سخت ہوئی
" تم سمجھتے ہو کہ تم اریس کی مدد کر کے بچ جاؤ گے "
آتش نے اس کا کالر اتنی زور سے پکڑا کہ اس کا گلا گھٹنے لگا
" مہر کہاں ہے؟"
" لا۔۔۔ لا ۔۔۔۔چھوڑو مجھے"
اس لڑکے کی سانس اکھڑنے لگی آتش نے ایک جھٹکے سے اس کو گاڑی کے بونٹ پہ دے مارا
" مہر کہاں ہے؟"
ہر لفظ کے ساتھ اس کی آواز اور گہری ہوتی گئی
" میں ۔۔۔میں نہیں بتا سکتا اگر میں نے بتایا تو اریس مجھے مار ڈالے گا"
" اور اگر نہیں بتایا تو میں تمہیں ایسے جینے بھی نہیں دوں گا"
ایک اور جھٹکا اور اس کا سر بونٹ پر زور سے لگا اس لڑکے کی چیخیں نکل گئیں
" ہاں میں بتاتا ہوں، بتاتا ہوں رک جاؤ"
اس کے ناک سے خون ٹپکنے لگا تھا
" اریس نے مہر کو ایک پرانی جگہ پر رکھا ہے، انڈسٹریل ایریا کے پاس ایک abandoned ملٹری بنکر۔۔۔۔ پلیز مجھے جانے دو "
آتش نے اس کا کلر چھوڑ دیا اپنا گلا رگڑتے وہ زمین پر گرتا چلا گیا آتش اس کے پاس جھک گیا اس کی گہری بھوری آنکھیں اس لڑکے کی سکون مانگتی آنکھوں میں ڈال دی
" تمہارے لیے صرف ایک وارننگ ہے اگلی دفعہ تم کسی غلط آدمی کی مدد کرنے کا سوچو بھی مت "
پھر وہ سیدھا ہوا اپنے ہاتھ سے اپنے بال پیچھے کیے
" مہر،"
اس رات صرف ایک شکار کی شکایت پولیس تک نہیں پہنچی تھی کیونکہ جس نے شکار کیا تھا وہ صرف انسان نہیں بلکہ
آتش زایان تھا،
☆☆☆
مہر کو جب ہوش آیا تو سب کچھ دھندلا تھا سر میں ایک عجیب سی درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں جیسے کسی نے ذہن کے اندر کے ہر حصے کو جلا دیا ہو اسے اپنی سانسوں کی آواز بھی تیز اور بھاری محسوس ہو رہی تھی بنکر کی وہ ٹھنڈی بند جگہ اور بھی زیادہ تنگ لگ رہی تھی اس کے ہاتھ اب بھی بندھے ہوئے تھے لیکن درد جسم کا نہیں تھا دل کا بھی تھا
" اٹھ گئی؟"
اچانک اریس کی آواز گونجی مہر نے دھیرے سے اسے دیکھا اس کی آنکھوں میں نفرت بھری تھی اریس ایک قدم آگے بڑھا ہاتھ بڑھا کر اس کی ٹھوڑی اونچی کی لیکن مہر نے ایک جھٹکے سے اپنا چہرہ پیچھے ہٹا لیا
" بہت ایٹیٹیوڈ ہے تمہارے اندر "
اریس ہلکا سا ہنسا مگر اس کی مسکراہٹ میں کوئی مذاق نہیں تھا
" میں جانتا ہوں کہ تم کیا سوچ رہی ہو ، یہ سب آتش زایان کو پتہ چل جائے گا اور وہ تمہیں ڈھونڈ لے گا ہے نا"
اس نے دھیرے سے کہا مہر کی آنکھیں تھوڑی بڑی ہوئیں اس کے اندر ایک چھوٹی سی امید جاگی تھی اریس نے اس کو دیکھا پھر ایک قدم پیچھے لے لیا دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے اس نے آرام سے کہا
" تم پاگل ہو اگر سوچ رہی ہو کہ وہ تمہیں ڈھونڈ لے گا"
مہر کا دل رکا اریس نے اپنی نظریں جھکائیں اس کی آنکھوں میں تحقیر سی تھی
" اس نے کبھی تمہیں اپنا سمجھا ہی نہیں ہے مہر "
مہر نے اپنی انگلیاں بند کر لیں
" بکواس بند کرو "
اریس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اسے مہر کی یہ بے بسی اب مزہ دے رہی تھی
" تمہارے گھر والوں کو دیکھو ایک دن بھی نہیں لگا ان کو یہ سوچنے میں کہ تم گھر سے بھاگ گئی ہو"
مہر کی آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے
" آتش تمہیں ڈھونڈنے نہیں آئے گا مہر، کیونکہ آتش کو فرق ہی نہیں پڑتا "
مہر کا دل ڈوبنے لگا
" وہ تو تمہیں چاہتا ہی نہیں تھا نہ ہی اس کی نظروں میں تمہاری کوئی اہمیت تھی"
اریس کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی مہر کی آنکھوں میں کچھ چمکا تھا دکھ یا پھر غصہ وہ سمجھ نہیں سکا اریس نیچے جھکا اور دھیرے سے کہا
" اگر آتش تمہیں ڈھونڈنا بھی چاہے تو بھی نہیں ڈھونڈ پائے گا کیونکہ تمہیں ایک ایسے اندھیرے میں پھینک دیا گیا ہے جہاں سے لوٹنے کا کوئی راستہ نہیں تمہاری کہانی یہی ختم ہو جائے گی مہر"
مہر کا دل اتنا ٹوٹ گیا اسے لگا اب سب کچھ واقعی ختم ہو گیا ہے اریس پیچھے ہٹا ایک آخری نظر مہر پر ڈالی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا دروازہ بند ہونے کی آواز پورے بنکر میں گونج گئی اور پھر سناٹا، مہر کا جسم کانپنے لگا،اس نے چیخنا چاہا چلانا چاہا مگر اس کی آواز بند ہو گئی وہ زور زور سے چیخ رہی تھی مگر اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی بنکر مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوب گیا تھا ڈمپ دیواریں ، ہوا میں سراندگی کا احساس، اور کونے میں بے جان سی بیٹھی مہر اس کا سر اب زمین سے لگ چکا تھا آنکھیں کھلی ہوئیں مگر بے نور اس نے کتنی دیر تک چیخے ماری تھی کتنی بار چلا کر مدد مانگی تھی اس کو خود بھی یاد نہیں تھا اب کوئی آواز نہیں نکل رہی تھی وہ بالکل خالی اور بے جان سی تھی مکمل طور پر ٹوٹ چکی اریس بے پرواہ سا بنکر میں دوبارہ داخل ہوا اس کے چہرے پر عجیب سی تسلی تھی
" مہر تمہیں سمجھ نہیں آیا نہ"
اریس اس کے سامنے بیٹھا، پھر اپنے ہاتھ سے اس کا چہرہ اٹھایا
" تمہاری یہ چیخیں بھی تمہاری مدد نہیں کر سکتی"
مہر نے خالی نظر اس پر ڈالی اس کی آنکھیں بے نور سی تھیں جیسے خالی اندھیرا ہو
" واؤ یار میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مہر بی بی کسی سے نہ ڈرنے والی بھری سڑک پر مجھ پر ہاتھ اٹھانے والی ایک دن اتنی بے بس ہو جائے گی "
مزے سے کہتے اس نے مہر کا چہرہ پیچھے کی طرف لڑھکا دیا مہر کا سر ایک جھٹکے سے سائیڈ پہ گرا مگر اس نے کوئی ری ایکشن نہیں دیا اس کا ذہن کام کرنا بند کر چکا تھا
" جواب دو، تم نے میری زندگی تباہ کی میری عزت مٹی میں ملائی اب چپ کیوں ہو"
وہ غصے سے گرجا اس نے مہر کے بالوں کو زور سے کھینچ کر اس کا سر پیچھے کر دیا مہر کی آنکھوں میں پانی تھا مگر وہ رو نہیں رہی تھی لیکن اب وہ چیخ بھی نہیں سکتی تھی اس نے بس ایک کمزور سی سانس بھری تھی
" اچھا اب روئے گی بھی نہیں مزہ نہیں آ رہا یار "
وہ اٹھ کر ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا جیسے سوچ رہا ہو کہ اب کیا کرے
" دیکھو مہر، تمہاری اس حالت کا مجھے بالکل بھی کوئی افسوس نہیں ہے مزہ لے رہا ہوں یار حق بنتا ہے"
پھر اچانک وہ دوبارہ جھک گیا
" تمہیں پتہ ہے نا تمہارے لیے یہ سب صرف شروعات ہے "
مہر کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹپک گیا
" چپ مت رہو مہر بولو نا !"
لیکن مہر اب کچھ بھی نہیں کہہ پا رہی تھی نہ ہی کچھ کہہ سکتی تھی اس کی آواز اس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی اس کی آنکھیں صرف خود میں بند ہو چکی تھی ذہن بھی بند ہو چکا تھا اب صرف تن دکھ رہا تھا
" اتنی جلدی ہار گئیں؟"
اس نے اس کا چہرہ زور سے چھوڑ دیا
" اب مجھے تم سے کوئی مزہ نہیں آ رہا "
وہ اٹھ گیا جیسے کوئی چیز توڑ کر پھینک دی ہو
" چلو اب میں چلتا ہوں لیکن واپس ضرور آؤں گا"
اریس نے ایک خوفناک مسکراہٹ دی اور مڑ کر چلا گیا جانے سے پہلے اس نے بنکر کا دروازہ زور سے بند کیا تھا
اندھیرا، تنہائی اور صرف بے نور سی مہر وہاں چھوڑ کر ،،،
اس کے چانے کے چند لمحوں بعد مہر کی آنکھوں کا آخری نور بھی چلا گیا اور وہ بے ہوش ہو گئی
جاری ہے
Momina aur Aimal 5 lakh milne ke baad café mein enjoy karne aayi hoti hain. Momina ko hamesha ki tarah sirf khane ka sochna hota hai, jabke Aimal uski food obsession par maze leti hai. Dono doston ke darmiyan usual masti aur friendly nok-jhok hoti hai. Tabhi waiter Aimal se poochta hai ke woh hamesha wala hi order chahti hai, jo Aimal ko ek pal ke liye confuse karta hai. Us moment pe Rafiq, jo corner table par hota hai, uska reaction zyada intense hota hai, specially jab Momina Aimal se Ali naam ke kisi ladke ka zikr karti hai. Rafiq ka coffee mug mazbooti se pakad lena Aimal ki nazar se nahi chupta. Yeh sab Aimal ko emotional kar deta hai jab usay pata chalta hai ke Rafiq uski chhoti chhoti baatein yaad rakhta hai. Lekin jab woh café se jaata hai, woh ek slip chhor jata hai jisme likha hota hai:
"Tumhari har baat mazaak ho sakti hai lekin har cheez nahi."
Yeh lafz Aimal ko andar tak jhatka dete hain.
Doosri taraf, Atish ab der se ghar aane laga hai aur Meher us baat se khush hoti hai ke usay uski "sadi hui shakal" na dekhni pade. Lekin Meher ab pehle jaisi bubbly nahi rahi, sabko uska badla hua rawayya mehsoos hota hai. Atish ka badalna, uska khayal rakhna Meher ko disturb karta hai. Usay lagta hai ke shayad Atish sach mein badal gaya hai... lekin sab kuch ulta ho jata hai jab ek raat bijli chali jaati hai, ghar mein andhera hota hai aur Meher ko ek anonymous message milta hai:
"Tumhare thappar ki goonj abhi tak mere kaan mein hai. Kya tum tayar ho?"
Agli subah Meher ko ek aur message milta hai:
"Dar mehakta hai Meher, aur mujhe tumhari yeh mehak bohat pasand hai."
Ab Meher sach mein dar jaati hai. Usay lagta hai koi usay observe kar raha hai. Jab usay apni khidki ke samne khadi hui khud ki photo milti hai, woh toot si jaati hai. Usay shak hota hai ke shayad yeh sab Atish ka plan hai. Usay lagta hai Atish us ladke ke saath mil gaya hai jise usne thappar maara tha. Emotional breakdown mein, Meher voice note bhejti hai jahan woh kehti hai:
"Atish ne kaha tha woh meri zindagi azaab bana dega, aur woh sach tha."
Episode ka end Meher ke dil ke bharas aur shak par hota hai. Suspense build hota hai – kya sach mein Atish ne yeh sab plan kiya? Ya koi aur iske peeche hai?