LightReader

Chapter 2 - یاریاں

تیسری قسط: کیمپس میں تصادم اور چار حسینہ کا جادو

جس روز رِمین اور اُس کی دوستیں یونیورسٹی پہنچیں، کیمپس کے ماحول پر ایک خاص کیفیت طاری تھی۔ رات کی مافیا وائبز والی لڑکیاں دن میں پُرکشش حُسن اور باوقار انداز کا مجسمہ لگتی تھیں۔ اُن کی خوبصورتی ایک دوسرے سے بڑھ کر تھی، اور ہر ایک کا انداز اپنی دوست سے بالکل جُدا۔

دن کی روشنی میں چار حسینہ کا تعارف رِمین: اِقتدار کا حُسن

رِمین، رات کی غصے والی رِمین دن میں بھی اپنی اکڑ برقرار رکھتی تھی، مگر اُس کے چہرے پر ایک وقار اور ذہانت کا حُسن نمایاں تھا۔ اُس کا رنگ صاف، قد لمبا، اور آنکھوں میں ایک ایسی چمک تھی جو براہِ راست بات کرتی تھی۔ یونیورسٹی کے رسمی مگر نفاست سے بھرپور لباس میں، وہ کسی طاقتور شہزادی کی طرح لگتی تھی، جِس کا ہر قدم سوچا سمجھا ہو۔ اُس کا حُسن ایسا تھا کہ ہر لڑکا اُسے دیکھتا، مگر اُس سے بات کرنے کی جُرت نہیں کر پاتا تھا۔

علیزے: خوابوں بھرا حُسن

علیزے کا حُسن کسی ناول کی ہیروئن سے کم نہیں تھا۔ اُسکی آنکھوں میں ہمیشہ ایک پُراسرار چمک اور معصومیت جھلکتی تھی۔ بال ہلکے کُھلے ہوئے، اور لباس میں ہمیشہ رومانی رنگوں کا انتخاب کرتی تھی۔ اُس کی نازک اور نفیس شخصیت، اور نرم گُفتگو، اُسے کیمپس کی سب سے دلکش لڑکیوں میں شامل کرتی تھی۔ وہ جِس طرف مُڑتی، وہاں ہلچل مچ جاتی، جیسے کسی نے پھولوں کی خوشبو بکھیر دی ہو۔

ماہم: وائرل حُسن

ماہم کا حُسن تازہ ترین فیشن اور دلکشی کا نمونہ تھا۔ اُس کا انداز ہمیشہ ٹرینڈ کے مطابق ہوتا، ہر چیز میں پرفیکشن ہوتی تھی تاکہ وہ کیمرے کے سامنے ہمیشہ فوٹو جینک لگے۔ وہ کِھلتا ہوا چہرہ، نوکیلی آنکھیں اور ہر بات پر شرارت سے مسکرانے کا انداز، اُسے سب کی توجہ کا مرکز بنا دیتا تھا۔ اگر کوئی اُس کے پاس سے گزرتا، تو ماہم کے چہرے سے خودپسندی (Self-Obsession) کی ہلکی سی جھلک بھی دکھائی دیتی، مگر وہ بھی اُس کی برانڈ کا حصہ تھی۔

ایمان: معصومیت کی شیطانیت

ایمان کا حُسن سب سے زیادہ دھوکہ دینے والا تھا۔ وہ بہت سادہ، معصوم اور حیا دار نظر آتی تھی۔ دھیمے رنگ کا لباس، بالوں کو سلیقے سے باندھا ہوا، اور نظریں جھکی ہوئی—مگر یہ سب محض ایک فریب تھا۔ جو بھی اُسے دیکھتا، وہ فوراً یہ سمجھتا کہ یہ یونیورسٹی کی سب سے شریف اور با اخلاق لڑکی ہے۔ لیکن یہ شریف شکل کے پیچھے بیٹھا ہوا فل ٹائم روسٹر کا دماغ کسی بھی وقت اپنا ڈرٹی پن دکھا سکتا تھا۔ اُس کی معصومیت ہی اُس کا سب سے بڑا ہتھیار تھی۔

کینٹین میں پہلی ٹکر (تصادم)

یونیورسٹی کا مرکزی کینٹین وہ جگہ تھی جہاں سارا کیمپس سانس لیتا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا اور ہجوم اپنے عروج پر تھا۔ چاروں لڑکیاں ایک بڑی میز پر بیٹھی ہنس رہی تھیں، علیزے کسی نئے ناول کی کہانی سنا رہی تھی اور ماہم زبردستی سب کے 'پوٹس' بنا کر سٹریکس بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی۔

اِسی دوران، زِرار، سمیر، آذان، اور عُمیر کینٹین میں داخل ہوئے۔ زِرار کی نظریں سیدھی اُن کی میز پر پڑیں۔ اُس نے آہستہ سے اپنے دوستوں کے کان میں کُچھ کہا۔

سمیر کا غصہ ابھی بھی اُس کے چہرے پر تھا۔ "زِرار! ابھی نہیں،" اُس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

زِرار نے ٹھنڈی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "بدلہ سڑک پر نہیں، عِزت کے میدان میں لیا جائے گا۔ وہ یونی کی جان ہیں؟ آج دیکھیں گے کون کس کا پرابلم بنے گا، اور کون سولیوشن دے گا۔"

چاروں لڑکے سیدھے اُس میز کی طرف گئے، جِس پر چاروں لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ یہ پہلی براہِ راست ٹکر تھی۔

زِرار نے پہل کی: وہ رِمین کے بالکل سامنے رُکا۔ "مَیں سمجھا تھا رات کے بعد آپ لوگ یونیورسٹی میں کم ہی نظر آئیں گی۔" اُس کی آواز میں طنز نہیں، بلکہ ایک رُعب تھا۔

رِمین کا ماتھا فوراً تن گیا۔ اُس نے اُوپر دیکھ کر آنکھیں سکوڑیں، "اور ہم سمجھے تھے کہ رات کو سڑک پر بھاگنے والے کم ہمت لوگ دن میں خود کو چھُپا کر رکھیں گے۔ غلطی ہماری بھی تھی کہ ہم نے آپ کی شرٹ پر صرف پانی پھینکا، دماغ ٹھنڈا کرنے کے لیے برف پھینکنی چاہیے تھی۔" یہ کہتے ہی وہ ہنس پڑی۔ یہ پہلی لڑائی تھی۔

زِرار بمقابلہ رِمین (ذہانت کی جنگ):

"مس رِمین، ہم بھاگے نہیں تھے، ہم نے ایک اخلاقی گراوٹ کا منظر دیکھا اور اُسے چھوڑ کر آنا مناسب سمجھا۔" زِرار نے بات کو اخلاقیات کی طرف موڑا۔

رِمین نے فوراً جواب دیا، "اوہ! کیا بات ہے۔ اور آپ جیسے اخلاقی لوگ رات کو سڑک پر لڑکیوں کو دیکھ کر غیر اخلاقی کمنٹ کیوں کرتے ہیں؟ یا آپ کی اخلاقیات صرف دن کی کلاسوں تک محدود ہیں؟"

عُمیر بمقابلہ ایمان (اِخلاقی دنگل):

رِمین کا جواب سُن کر عُمیر فوراً بیچ میں بولا، جِس کو ماہم کی ریلز اور ایمان کا کمنٹ اب بھی یاد تھا۔

"اور آپ چاروں کو رات کے وقت سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ آپ کا لباس اور یہ بائیکس پر مافیا بن کر نکلنا، کیا یہی آپ کی تعلیم ہے؟" عُمیر نے سیدھا مذہب اور اخلاقیات پر حملہ کیا۔

اب ایمان کا وقت تھا۔ اُس نے نہایت معصومیت سے مُنہ اُٹھایا، جیسے اُسے اُڑتے ہوئے پرندے سے بھی شرم آتی ہو۔

"عُمیر بھائی! آپ نے ہمارے لباس پر کمنٹ کیا؟ کیا ہم برقعے میں آئیں تو آپ اعتراض نہیں کریں گے؟" وہ ایک سیکنڈ رُکی، اور پھر اُس کے چہرے پر شیطانیت آ گئی۔ "اور اگر ہم رات کو سڑک پر نکلیں، تو وہ ہماری خودمختاری ہے۔ ویسے، آپ کا دماغ تو ہر وقت اخلاقیات میں رہتا ہے، پھر رات کو گندی باتیں کیوں سُن رہے تھے؟ کیا آپ بھی صرف دن کے ٹائم کے شریف ہیں؟" ایمان کے اس روست پر کینٹین میں بیٹھے کئی لڑکوں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنا شروع کر دیا۔ عُمیر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔

سمیر بمقابلہ ماہم (غصہ اور نخرے):

سمیر کو یہ ہنسی برداشت نہیں ہوئی، "یہ سب تم لوگوں کی شرارتیں ہیں۔"

ماہم نے فوراً اپنا فون نکالا، ایک بومرینگ بنائی، اور سمیر کی طرف کیمرہ کر دیا۔ "اوہ سَمی! تمہارا غصہ آج وائرل ہو جائے گا! رک جاؤ، Snapchat Filter

 لگا کر بھیجتی ہوں، تاکہ تمہارے غصے میں تھوڑی سی معصومیت آ جائے۔" ماہم کا یہ نخرہ اور ریل بنانے کا انداز سمیر کے غصے کو مزید بڑھا گیا۔

ایک طرف علیزے انہیں روک رہی تھی اور دوسری طرف اذان انہیں روکنا چاہ رہا تھا کے بات ہاتھ سے نکل نہ جائے 

زِرار کا فیصلہ (ماسٹر پلان):

زِرار سمجھ گیا کہ یہ جنگ کینٹین میں ختم نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے کہ بات ہاتھا پائی تک پہنچے (جِس میں دونوں گروہ ماہر تھے)، اُس نے رِمین کو آخری وار کیا۔

"ٹھیک ہے۔ ہم یونیورسٹی کے سب سے بڑے ڈیبیٹنگ سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ ہم آپ کو کھلے مُقابلے کی دعوت دیتے ہیں۔ اِسی یونی کی رِیوائیول فیسٹ میں۔ جو جیتے گا وہ دوسرے کو سڑک پر پیش آنے والے واقعے کی معافی مانگے گا، اور جو ہارے گا وہ ہمارے سامنے کُھلے عام اپنی شرارتیں بند کر دے گا۔" زِرار نے کہا، جیسے اُس نے کوئی بم پھینک دیا ہو۔

رِمین نے زِرار کی آنکھوں میں دیکھا، اُس کی آنکھوں میں چیلنج کو قبول کرنے کی چمک تھی۔

"ہمیں منظور ہے۔ ہم ہر سولیوشن کو پرابلم میں بدلنا جانتے ہیں، مقابلہ قبول ہے۔"

چاروں لڑکے کینٹین سے نکل گئے، اور پیچھے چھوڑ گئے ایک ایسی خاموشی جو آنے والے طوفان کی نشانی تھی۔ رات کی مافیا وائبز اب دن کی روشنی میں علم اور اِقتدار کی جنگ بن چکی تھی۔ اب یونیورسٹی میں کسی کو نہیں پتہ تھا کہ یہ لڑائی دوستی اور ہم سفر کے رشتے میں کب تبدیل ہو جائے گی۔

چوتھی قسط: تیاریوں کی نوک جھونک اور ایک راز

کینٹین میں ہونے والے اعلان نے یونیورسٹی کی فضا میں ایک عجیب سی خُوشی اور تناؤ بھر دیا تھا۔ رِیوائیول فیسٹ کے ڈیبیٹ مقابلے میں اب صرف ایک ہفتہ باقی تھا، اور دونوں گروہ اپنی اپنی تیاریوں میں مگن تھے۔ یہ مقابلہ صرف سڑک کے بدلے کا نہیں تھا، بلکہ اِقتدار، عِزت، اور کیمپس کی ٹاپ پوزیشن کا سوال تھا۔

کیمپس میں نوک جھونک کا ماحول

رِمین کا گروہ زیادہ تر لائبریری کے سب سے پُرسکون کونے پر قبضہ کر لیتا، جہاں وہ اپنی تیز اور منطقی دلائل کی تلواریں تیز کر رہے تھے۔ زِرار اور اُسکے دوست ہاسٹل کے کَامَن ہال میں بیٹھ کر تیاری کرتے تھے، جہاں شور میں بھی وہ ایک دوسرے کے دلائل کاٹتے رہتے تھے۔

رِمین اور زِرار کا ٹکراؤ (ذہانت کی چنگاری):

ایک شام رِمین لائبریری میں کچھ کِتابیں ڈھونڈ رہی تھی کہ اُسے وہی کتاب مِلی جِس پر اُس کی نظر تھی، مگر زِرار کا ہاتھ پہلے ہی وہاں تھا۔

"مجھے یہ کتاب چاہیے، مس رِمین۔ یہ ہماری ڈیبیٹ کے موضوع سے متعلق ہے۔" زِرار نے نہایت ٹھنڈے انداز میں کہا۔

رِمین نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا، "تمہارے لیے ہر سولیوشن کو پرابلم میں بدلنا میرا شوق ہے۔ یہ کتاب اب میری ہے۔"

زِرار نے ہنس کر کہا، "کیا آپ کو لگتا ہے کہ کتاب چُرا لینے سے آپ جیت جائیں گی؟ آپ کے پاس صرف غصہ ہے، ہمارے پاس حکمتِ عملی (Strategy) 

ہے۔"

"اور تم سمجھتے ہو کہ تمہاری حکمتِ عملی ہمیں خوفزدہ کرے گی؟" رِمین نے کتاب چھینتے ہوئے کہا، "میرے پاس وہ غصہ ہے جو ہار کو شکست میں بدل دیتا ہے۔" وہ وہاں سے نکل گئی، مگر زِرار کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی، کیونکہ اُسے پتہ تھا کہ اُس نے رِمین کو غصہ دِلا کر اُس کی توجہ اصلی تیاری سے ہٹا دی ہے۔

ماہم اور عُمیر کا فیشن وار:

ماہم ایک کلاس روم میں اپنے فون پر ٹرانزِیشن ریل بنا رہی تھی، جِس میں وہ یونیورسٹی کے بِلڈنگ کو اپنا بیک گراؤنڈ بنا رہی تھی۔ عُمیر (خُود پسند) نے یہ دیکھا اور اُس کی طبعیت پر شدید بوجھ پڑا۔

عُمیر نے پاس آ کر کہا، "یہ تعلیم کا مندر ہے، ماہم۔ کوئی رِیل کا ڈرامہ نہیں ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ آپ کے اِقتدار کو خراب کر رہا ہے؟"

ماہم نے فوراً اپنا فون عُمیر کی طرف گھمایا اور کہا، "اوہ عُمیر! آپ کو پتہ ہے آپ کس چیز کو خراب کر رہے ہیں؟ آپ اپنا عُمر حیات والا لُک خراب کر رہے ہیں جو آپ صبح آئینے کے سامنے تین گھنٹے کھڑے ہو کر بناتے ہیں۔ یہ میری ریل ہے، اور آپ اس میں ولن بن کر وائرل ہو رہے ہیں، اب پُوز بنائیں!" عُمیر غصے سے اپنا چہرہ سہلاتا رہ گیا، اور ماہم نے اُس کے غصے والے پوز کو ریل میں شامل کر لیا۔

ایمان اور سمیر کا تیزابی کمنٹ:

سمیر اور اُس کے دوست جب کینٹین میں بیٹھے تھے، تو ایمان وہاں سے گزری، وہ انتہائی شریفانہ لباس میں تھی۔ سمیر نے غصے میں کہا، "یہ لوگ ڈرامے باز ہیں۔ یہ دن میں فرشتہ بنتے ہیں، اور رات میں۔۔۔"

ایمان فوراً رُک گئی اور نہایت معصومیت سے سمیر کی طرف دیکھا، "رات میں کیا، سمیر بھائی؟ ہم رات میں اِنسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور آوارہ کتّوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ آپ رات میں کیا کرتے ہیں؟ آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کی اخلاقیات بہت اُونچی ہیں، تو ہمیں ڈرٹی مائنڈ کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کا دماغ رات کو ری چارج ہو جاتا ہے؟" ایمان کی بات پر سمیر کا غصہ آسمان پر چڑھ گیا، لیکن وہ مار پِیٹ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ کیمپس تھا۔اور سامنے لڑکی تھی جسے وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا 

آذان کا مسئلہ اور علیزے کی خاموش مدد

اِن نوک جھونک کے بیچ، ایک خاموش ڈرامہ چل رہا تھا۔ آذان، جو ڈرپوک تھا، یونیورسٹی کے فائنل آرکیٹیکچر ڈیزائن پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ وہ ایک بہت اہم ماحولیاتی ماڈلنگ پروپوزل تھا، جِس کی سبمِشن شام پانچ بجے تھی۔ وہ دِن بھر پریشانی میں تھا، کیونکہ اُس سے پروجیکٹ کی فائل کا اصل ڈرافٹ کھو گیا تھا۔

وہ ڈرپوک ہونے کی وجہ سے کِسی کو بتا نہیں سکتا تھا۔ اگر زِرار کو پتہ چلتا، تو وہ اُسے ڈانٹتا اور سمیر بھی غصہ کرتا۔ وہ گھبراہٹ میں یونیورسٹی کی گلیوں میں پاگلوں کی طرح ڈرافٹ ڈھونڈ رہا تھا۔

اُس وقت علیزے نے اُسے دیکھا۔ علیزے کی آنکھوں نے، جو ہمیشہ ناول کے کرداروں کو پڑھتی تھیں، فوراً آذان کے چہرے پر ہیرو کی بے بسی کو بھانپ لیا۔ اُسے یاد آیا کہ پچھلے گھنٹے اُس نے زِرار کے گروپ کی میز کے نیچے ایک موٹا سا نیلے رنگ کا ڈرافٹ دیکھا تھا، جِس پر پنسل سے کوئی نقشہ بنا ہوا تھا۔

علیزے کو اپنے اصول یاد آئے: "جِس سے ایک کی لڑائی، اُس سے تینوں کی لڑائی۔" زِرار کے گروپ سے لڑائی جاری تھی، اور اگر اُس نے آذان کی مدد کی، تو یہ خلافِ قانون تھا۔ مگر اُس کا ناول زادی والا دِل، جو ہر مشکل میں مدد کرنے پر مجبور ہوتا تھا، یہ بے بسی دیکھ کر خاموش نہ رہ سکا۔

وہ چُھپ کر واپس اُس کمرے کی طرف گئی، جِس میں زِرار اور اُس کے دوست تیاری کر رہے تھے۔ کمرے کے باہر سے نیلے رنگ کا ڈرافٹ ابھی بھی میز کے نیچے جھلک رہا تھا۔ علیزے نے اپنے آپ کو لعنت بھیجی کہ وہ ایک دشمن کی مدد کر رہی ہے، لیکن اُس نے بہادری سے کام لیا۔ اُس نے ڈرافٹ باہر نکالا۔

اُس نے فوراً وہ ڈرافٹ لیا، اور بغیر کسی کو بتائے، وہ سیدھی ہاسٹل کی طرف بھاگی۔ اُسے آذان کا کمرہ نمبر معلوم تھا، کیونکہ اُس کی دوست ماہم کے سٹیکرز کبھی کبھار غلطی سے لڑکوں کے ہاسٹل تک پہنچ جاتے تھے۔ اُس نے آہٹ لیے بغیر، دروازہ ہلکا سا کھولا اور وہ اہم ترین فائل آذان کے بیڈ کے قریب والی میز پر رکھ دی اور وہاں سے ایسے غائب ہو گئی جیسے کوئی خیالی کردار۔

کُچھ دیر بعد آذان ہاسٹل پہنچا۔ وہ تقریباً رو رہا تھا کہ اُس کا سمسٹر خراب ہو گیا، مگر جب اُس نے میز پر وہ فائل دیکھی تو اُس کی آنکھوں میں حیرانی اور سکون کی چمک آ گئی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کس نے کیا، مگر اُس نے دِل ہی دِل میں اُس خاموش فرشتہ کا شکریہ ادا کیا۔

دوسری طرف، علیزے واپس اپنی دوستوں کے پاس بیٹھی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اُس نے ایک بڑا راز چھُپا لیا ہے۔ وہ اصول، جو اُن کی دوستی کی جان تھا: "بات نہیں چھُپانی، جو ہے جیسا ہے مِل کر سنبھالیں گے۔" اُس نے ایک لمحے کے لیے زِرار کے ٹھنڈے چہرے اور آذان کی بے بسی کا موازنہ کیا، اور فیصلہ کیا کہ یہ راز فی الحال راز ہی رہے گا، جب تک کہ مقابلہ ختم نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ اگر یہ راز کُھل گیا، تو یونیورسٹی میں آنے والے طوفان سے بڑا طوفان اُن کی دوستی میں آ سکتا تھا۔

اب آگے ان کی دوستی میں کیا موڈ آنے والا تھا یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا …..

More Chapters